ایک طرف ایک پروفیشنل تھیٹر سیٹ جو پاکستان سے باہر کی ہے اور دوسری طرف بلوچستان میں آج ہونے والے تھیٹر شوکا سیٹ ہے
اب بات کرتے ہے آج کے تھیٹر شو کے حوالے سے جو کہی سال بعد دوبارہ ہو رہا ہے بلوچستان میں لیکن وہی لوگ جو سالوں سے اس کی بربادی کا زمہدار ہیں۔
کچھ ایکٹرز نے دل لگا کر اپنے کردار کو پیش کیا جیسے فراز مری جو مست توکلی کا کردار کر رہے تھے دل کو چھو لینے والی ایکٹنگ ۔
پھر دوسری طرف سینیر فنکاروں میں عبداللہ غزنوی نے بھی اپنے کردار کو برقرار رکھا ۔
باقی ایکٹرز کی پرفارمنس دیکھ کر لگ رہا تھا جیسے یہ اسکریپ انھیں جلد بازی میں دی گئی ہے کسی کو اپنے جملے یاد نہیں تو کسی کو اپنا ردم ۔
چلو شروعات ہے لیکن یہ انکا پہلا کام تو نہیں تھا یہ برسوں سے کام۔کرتے آرہے ہیں
پروگرام ختم ہونے کے بعد میں نے کسی سے پوچھا کہ وہ اسٹیج پر پلاسٹک کی مچھر دانیاں کیوں لگائے تھے ان لوگوں نے تک کسی نے مسکرا کر کہا کہ وہ مچھر دانی نہیں ایک بلوچستان کا پہاڑ ہے اور دوسری سمو جو مست توکلی کی محبت تھی اسکا خیمہ ۔ مجھے حیرانی ہوئی کے ہم کیا پیغام دے رہے ہے آج کے اس نوجوان کو جو ان چیزوں سے اب بہت آگے نکل چکی ہے ۔
آج آپ کسی کو بیوقوف نہیں بنا سکتے ۔
تھیٹر میں واڈروب اور پروڈکشن ڈیزائن کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے آپکا سیٹ ڈیزائنر آرٹ ڈائیرکٹر اتنا تخلیقی ہونا چاہیے کہ اسے خیمہ بنانے سے لیکر پہاڑ بنانے تک کا ہنر آتا ہو۔
چلو آج ہم نے آپکا کام بھی دیکھا کیونکہ آپکے باتیں آسمانوں میں کام دو ٹکے کا نہیں ۔
اب آپ بتاؤ دوبارہ ہم انکو اس طرح برداشت کر سکتے ہے یقینا نہیں آتا ۔ کیسے یہ ترقی کرینگے جیسے یہ اس فن کی حفاظت کرینگے ۔
آپکو سیکھنا ہوگا سمجھنا ہوگا اس فن کے ساتھ ایمانداری سے کام کرنا ہوگا اور جو جس کا کام ہے اسے اسکے زمہ داری سنبھالنا ہوگا ۔
سمو اور مست توکلی کی کہانی جہاں تک میں نے سنا تھا وہ جوان تھے مست توکلی ایک بہترین فنکار فراش مری جو ایک۔نوجوان خوب روح فنکار ہے اسکے سامنے ایک بڑی عمر کے عورت کو سمل بنا کر کیا انصاف ہے اس کردار کے ساتھ ۔
اور آخر میں سمل کا والد سمل کو نازیبا طریقے سے ہاتھ مار کر لے جا رہا تھا جو اخلاق کے دائرے سے بھی باہر تھا ۔
چلو میں ہم آپکی واہ واہ کرینگے مگر آپ یقین مانو تھیٹر پھر سے ڈوب جائے گا اور پھر سے یہ فنکار زلیل ہونگے اگر انھوں نے اس فیلڈ کے ساتھ ایمانداری سے کام نہیں کیا ۔
مجھے نہ۔کہانی سمجھ آئی ۔نہ ہے آڈیو ٹھیک تھا ساؤنڈ کانوں کو چبا رہا تھا ۔
نہ ہی انکا سیٹ سمجھ آیا ہے مچھر دانیاں تھی یا پہاڑ ۔
اس لیے امید کرتے ہے آگے ایسے ڈائریکٹرز کو پہلے ٹرینینگ دینجاءے پھر انکا اسکرپٹ منظور کیا جاءے۔ اور انکا ایک دوسرے سے مقابلہ بھی ہونا چاہیے تاکہ انکے اسکول مزید انور جائے ۔
شکریہ
تحریر نصیر رند
Comments
Post a Comment